موجودہ دور علم
و فن اورتحقیق و ریسرچ کا ہے، آج دنیا اکتشافاتِ جدیدہ کے
میدان میں بہت آگے نکل چکی ہے، مگر ساتھ ہی اس کے اظہار میں
بھی ذرّہ برابر تذبذب نہیں کہ دنیا اُس ”نظامِ حیات“ سے
کافی دور جا پڑی ہے،جس نے انسان کو انسانیت بخشی،یہ
درست ہے کہ انسانی دماغ نے فضا کو محکوم بنا لیا اور زمین کا سینہ
چیر کر اس کے خزانے نکال لیے؛ لیکن اسی کے ساتھ اس سے بھی
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ماڈل اور ترقی یافتہ دور میں
نہ اخلاق و اعمال کی پاکیزگی باقی رہی اور نہ عقائد
و اعمال کی پختگی،نہ دلوں میں اخلاص و للّٰہت کی
روشنی رہی اور نہ سینوں میں امانت و دیانت کی
ذمہ داری،مختصر یہ کہ انسان سب کچھ ہے ؛ لیکن جوہرِآدمیت
سے محروم ہے،تا ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس تہذیبی
اور صنعتی انقلاب کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا
جا سکتا،جس طرح انسان ترقی کرتا گیا،اُس کی ضرورتیں بڑھتی
اور پھیلتی چلی گئیں، جس نے ایسے بہت سے شرعی
مسائل کو جنم دیا جن کا حل صراحتاً قرآن و حدیث اور اقوالِ صحابہ میں موجود نہیں ہے،جب کہ
اسلام ایک ہمہ گیر اور دائمی ”نظامِ حیات“ ہے اور اُس نے
اپنی اسی شانِ ہمہ گیری اور دوامی حیثیت
کی بقا کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی
ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ ا نسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے
اور اپنے پیروکاروں کی رہبری کر سکے؛چنانچہ ہر دور میں
قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والے علماء ربّانیین اور
مفتیانِ شرع متین کی ایک ایسی جماعت منجانب
اللہ پیدا ہوتی رہی جس نے کتاب اللہ،سنتِ رسول اور دیگر
نصوصِ شرعیہ میں باہمی غور وفکر اور عمیق بحث و ریسرچ
کے بعد ان نت نئے مسائل کا حل امت کے سامنے پیش کیا؛تاکہ امّت کے تمام
افراد دن و رات کے پیش آمدہ مسائل میں کہیں الجھاوٴ میں
گرفتار نہ ہو جائیں،بلا شبہ و بلا مبالغہ انھیں مستنبط شدہ احکام و
مسائل کا نام ”فتویٰ“ ہے، زمانے کی تبدیلی،احوال کے
فرق اور ضرورتوں و تقاضوں کے تحت آنے والے نت نئے پیچیدہ مسائل کا فقہی
اُصول و ضوابط کی روشنی میں حل کرنے کا نام ہی تو ”فتویٰ“
ہے ، فقہائے کرام و مفتیانِ عظام نے اپنی شبانہ روز محنت، اپنے فہم و
ادراک کا صحیح استعمال اور نہایت ہی دیانت و امانت کے
ساتھ سالہا سال نصوص شرعیہ میں باہمی غور و فکر کے بعد” فقہ و
فتاویٰ“ کا عظیم الشان تحفہ امت کے حوالے کر دیا،بحث و ریسرچ
کا یہ سلسلہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے ،ان حضرات کی
محنتوں اور کاوشوں کی جتنی پذیرائی کی جائے کم ہے۔
فتوی کا
انسانی زندگی اور معاشرہ سے انتہائی گہرا تعلق ہے،فقہ و فتاوی
سے انسانی زندگی کے شب وروز،معاشرہ کے نشیب و فراز میں نہ
یہ کہ صرف رہنمائی ملتی ہے؛بلکہ اس سے سماج کو حرکت،حرارت اور
اسپرٹ بھی نصیب ہو تی ہے؛مگر یہ انتہائی افسوناک
بات ہے کہ آج امت مسلمہ میں اس عظیم الشان، ناگزیر اور نازک ترین
دینی شعبہ کے حوالے سے یہ کہہ کر گمراہی پھیلانے کی
نامسعود کوششیں کی جا رہی ہیں کہ اسلام میں”فتویٰ“
کی حیثیت صرف اور صرف ایک رائے کی ہے، جس پر عمل
کرنا ہر ایک کے لیے ضروری و لازم نہیں ہے،کسی کی
طرف سے امت کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی
ہے کہ ”فتوی“ قرآن و حدیث سے الگ ایک چیز ہے،جو غیر
واجب العمل ہے،’فتوی‘ مفتی کی اپنی نجی رائے ہے ا
ور دینی احکامات سے الگ ایک غیر اہم اور غیر ضروری
شئے ہے وغیرہ وغیرہ، الغرض دین کے اس اہم ستون کو جس کی
بنیاد خود نبی اکرم … نے رکھی منہدم کرنے اور امت مسلمہ کے قلب
و دماغ سے اس کی عظمت ووقعت کو نکالنے کی ناکام کوششیں کی
جا رہی ہیں،اسے اس امت کا المیہ ہی کہا جائے کہ یہ
ساری ”بکواس“ کسی غیر کی طرف سے نہیں؛بلکہ اُن
دانشورانِ ملت کی طرف سے ہو رہی ہے، جنہیں دین کا” مفکر“
اور ”ماہرِاسلامیات“ جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے․
”فتویٰ“ کی حیثیت صرف رائے کی ہے ،یہ
تھیوری کم علمی اور اسلامیات سے نا واقفیت کی
بنیاد پر گڑھی جا رہی ہے، ”فتوی“ در اصل کسی پیش
آمدہ مسئلہ میں شرعی حکم بیان کرنے کا نام ہے،”ڈاکٹر شیخ
حسین ملّاح“ نے فتوی کی تعریف ان الفاظ میں کی
ہے ’ ’ پیش آمدہ واقعات کے بارے میں دریافت کرنے والے کو دلیل
شرعی کے ذریعہ اللہ تعالی کے حکم کے بارے میں خبر دینے
کا نام ”فتویٰ“ ہے (الفتوی و نشأتھاوتطورھا ۱/۳۹۸) تمام مصنّفین نے فتوی کو شریعت کا حکم قرار دیا
ہے،خود قرآن کریم میں فتوی کو شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے
استعمال کیا گیا ہے،( سورة النساء ۴:۱۲۷-۱۷۶)اسی طرح ایک دوسری حدیث میں یہ
لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، (دارمی: ۱/۱۵۷) ” فتوی“ اگر ایک رائے ہے تو وہ مفتی کی
کوئی نجی رائے نہیں؛بلکہ شرعی رائے ہے ،جو ہر حالت میں
واجب العمل ہے، آپ ہی انصاف کریں کہ اگرکسی سائل نے کسی
مفتی سے نماز کے لیے وضو کے بارے میں سوال کیا ، اور مفتی
نے وضو کو نماز کے صحیح ہونے کے لیے شرط بتا دیا ،تو کیا
مفتی کا یہ فتوی صرف ایک رائے کی حیثیت
رکھتا ہے، جس کا ماننا ہر ایک کے لیے ضروری نہیں ہے؟؟
فتوی کے تاریخی پس منظر کے
مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امت کے سب سے پہلے مفتی خود مفتی
الثقلین جناب محمد رسول اللہ … کی ذات گرامی ہیں، آپ نے
”جوامع الکلم“ کی شکل میں فتوے دئے،جو احادیث کی شکل میں
ہمارے سامنے موجودہیں، (اِعلام الموقعین: ۱/۱۱) آپ … کی وفات کے بعد صحابہٴ کرام نے اس حسّاس اور ناگزیر شرعی
ذمہ داری کو سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا،الغرض
دورِنبوت سے لے کر دورِ حاضر تک فتوی کی نازک ترین ذمہ داری
امت کے فقہا ء کرام و مفتیان عظام کے ذریعہ انجام دی جارہی
ہے، ا ن حضرات نے اپنی جانفشانی اور خدا ترسی کے ساتھ حلال و
حرام کے جو قواعد و ضوابط مرتب کیے،وہ تاریک رات میں روشن
ستاروں کی مانند ہیں،اور امام شاطبی کے بقول یہی حضرات انبیاء
کرام کے حقیقی وارث ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں
کہ ایک مفتی کے لیے تقوی،تفقہ،دیانت و امانت اور بیدار
مغزی و زمانہ شناسی جیسی متعدد صفات کا حامل ہونا ضروری
ہے، تو اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ وہ کسی
بھی پیش آمدہ مسئلہ کے جواب میں احکامِ خداوندی کا ترجمان
ہوتا ہے،اُس کے فتوی کو ”رائے“ کہہ کر مسترد کر دینا فرمانِ خداوندی
کو ٹھکرا دینے کے مترادف ہے،یہ بھی تسلیم ہے کہ اگر کسی
مفتی نے کوئی غلط فتوی دیا جو شرعی اصول اور اسلامی
مزاج سے متصادم ہے،تو اس فتوی کو اصول و ضوابط کی روشنی میں
رد کیا جانا ضروری ہے؛ کیونکہ وہ حکم شرعی نہیں ہے؛
تاہم اس طرح کے غلط فتوے کی آڑ میں مجموعی طور پر اس اہم ترین
دینی ذمہ داری (فتویٰ) کو زک پہنچانے کا کوئی
جواز نہیں، جب ایک مستند مفتی کسی مسئلہ کے جواب کے لیے
قلم اٹھاتا ہے،تو اس کے دل میں جہاں خوف ِ خدا ہوتا ہے،اسی طرح سائل
کے حالات،زمانے کی تبدیلی اور حالات کے تقاضے سمیت بہت
ساری چیزوں کو سامنے رکھ کر پوری بصیرت اور ذمہ داری
کا احساس کرتے ہوئے وہ شریعت کی ترجمانی کرتا ہے، موجودہ دور میں
”فتویٰ“ کی معنویت وافادیت اور اس کی ضرورت
پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے،گلوبلائزیشن کے اس دور میں
تجارت و ملازمت اور صنعت و حرفت کی نئی نئی شکلوں نے جنم لیا
ہے،میڈیکل سائنس کے حیران کن ریسرچ نے علاج اور تحفظِ
انسان کے لیے نئی نئی ایجادات پیش کی ہیں،انسان
آسمانوں پر اپنی آبادی بسانے لگا ہے،مختصر یہ کہ انسانی
زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی نئی راہ کھل چکی
ہے ․اس صورتِ حال میں” فقہ و فتاوی“ ایسا فن بن گیا
ہے جس سے کوئی مفر نہیں،ایک شخص اپنے آپ کومسلمان بھی
کہے،یعنی وہ ایک مکمل ”نظامِ حیات“ کا پابند بھی ہو
اور اسے اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں فتوی کی
ضرورت پیش نہ آئے، ایساممکن ہی نہیں؛بلکہ عقائد، عبادات،
معاملات، معاشرت اور اخلاق و اعمال میں سیکڑوں ایسے مواقع آتے ہیں،جہاں
اسے فتوی کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور یقینی طور
پر وہ فقہائے عظام اور مفتیانِ کرام کی رہبری کا محتاج ہوتا
ہے،ہر شخص کو اپنی منہمک زندگی میں اس قدر مہلت کہاں کہ وہ یکسر
قرآن و حدیث کا مطالعہ کرے اور وقت کے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔
***
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6 ،
جلد: 97 ، شعبان 1434 ہجری مطابق جون 2013ء